۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی

حوزہ/ پرامن جلوس میں شرارت اہل سنت نہیں کرتے، یہ شرارت ایک ٹولہ ہے جن کو نہ حسینؑ سے محبت ہے نہ حسینؑ سے محبت کرنے والوں سے محبت ہے۔ لیکن ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم عزاداری کو اور بہتر انداز سے آگے بڑھائیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی و شیعہ علماء کونسل پاکستان کے رہنما علامہ شبیر میثمی نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ مومنین کرام تقویٰ اختیار کیجئے، اپنے امور کو منظم کیجئے، یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ دس دن مسلسل مجالس عزاء میں شرکت، ماتم داری، نوحہ خوانی، ذکر فضائل و مصائب اہل بیت علیہم السلام - اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمارے لئے نعمتوں کا معیار یہ ہے کہ ہم اہل بیت علیہم السلام کی خوشی میں خوشی اور غم میں غم مناتے ہیں۔ قیام امام حسین علیہ السلام کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسلام کی ڈائریکشن تبدیل کی جا رہی تھی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی محنت کو ضائع کیا جا رہا تھا۔ جب یزید ابن معاویہ ابن ابی سفیان کو تخت پر بٹھایا گیا تو خود اس دور کے لوگوں نے یزید کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، آپ سن لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یزید کس شخصیت کا مالک تھا۔ انحراف وہاں سے شروع ہوتا ہے جب انسان، آیات کے معانی و مفاہیم میں تبدیلی کرتا ہے۔کیونکہ قرآنی آیات میں تبدیلی تو ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون۔ بیشک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ آیتِ قرآنی ہے: اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم۔ یعنی اطاعت کرو اللہ کی، رسول کی اور اولی الامر کی۔ اب اولی الامر کی تفسیر کرکے یزید کو صاحب امر بنا دیا گیا۔ چنانچہ ایک یزیدی مولوی یہ کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ حسینؑ (نعوذ باللہ) واجب القتل تھا کیونکہ حسینؑ نے خلیفہ وقت کی مخالفت کردی۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ حسینؑ مارا گیا۔ یہ سوچ اس لئے بدل گئی کہ آیت قرآن کا مفہوم بدل دیا گیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آیات قرآنی وہ ہیں جن سے بہت سے لوگ ہدایت پاجاتے ہیں اور بہت سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ گمراہ ہونے والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے قرآنی آیات کے معانی کو تبدیل کردیا۔ چنانچہ یزید کو اولی الامر بنا کر اسے واجب الاطاعت سمجھنے لگے۔ یہ انحراف ایک دم سے وجود میں نہیں آیا۔ کیونکہ ایک دم سے وجود میں آنے والی چیز ہوا کے ایک جھونکے سے زمین بوس ہوجاتی ہے۔ لیکن جب فساد کی بنیادیں مضبوط ہوں تو فساد دور تک جاتا ہے۔ چنانچہ ان بنیادوں کو مضبوط کر کے یزید کے ذریعے اس پر مہر لگا دی گئی۔میں اصحاب کو دل سے احترام کرتا ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اصحاب کے مرنے پر سونے کے ڈلوں کو کلہاڑیوں سے توڑ کر ان کے ورثاء میں تقسیم کیا گیا۔ جبکہ اسی معاشرے میں ایسے مسلمان بھی تھے جو شدید غربت و افلاس میں زندگی بسر کر رہے تھے۔

مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبوں میں بتا دیا کہ اسلام کی بنیادی چیزوں میں تبدیلی کی جا رہی تھی۔ یزید رجل فاسق، شارب الخمر، معلن بالفسق۔ ایک مولوی نے میرے ان جملوں کو سن کر کہا کہ آپ نے تو یزید پر سنگین الزامات لگا دئیے ہیں۔میں نے کہا یہ میرے نہیں امام حسین علیہ السلام کے الفاظ ہیں۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے کہ میں امام حسین علیہ السلام سے اس بات کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ میں نے کہا آپ امام حسین علیہ السلام سے ان الفاظ کی توقع نہیں رکھتے لیکن کسی نے یزید کو تخت پر بٹھا دیا، اس سے اس کی توقع کرتے ہیں۔ بالآخر لوگوں نے یزید کی بیعت کی تب ہی تو اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے۔ سید الشہداء علیہ السلام نے دیکھا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اگر میں قیام نہ کروں تو میرے بعد کسی کے لئے قیام کرنا ممکن نہ ہوگا۔حتی دیگر ائمہ کے لئے بھی۔ کیونکہ امام حسین علیہ السلام اپنی ایک پہچان رکھتے تھے، آپؑ پنجتن پاک میں شامل تھے، دوشِ رسالت کے سوار تھے، آپؑ کے پشتِ رسول پر سوار ہونے کی وجہ سے رسول اکرم ﷺ نے سجدے کو طولانی کیا تھا، آپ آیہ مباہلہ کے مصادیق میں سے ایک تھے۔ اگر امام علیہ السلام کے علاوہ کوئی شخصیت اسلام کو بچانے کے لئے قربانی دے دیتے تو بات نہیں بنتی۔ سید الشہداء علیہ السلام نے آج کے زمانے کے کچھ نادانوں کو یہ بتانے کے لئے قیام کیا کہ تم سمجھتے ہو ہم سب سے اوپر ہیں جبکہ اسلام ہم سب سے اوپر ہے۔ اسلام کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا۔ آپ نے امام علیہ السلام کے مصائب میں سنا ہوگا کہ سید الشہداء علیہ السلام کے چھ ماہہ بچے کو بھی شہید کردیا گیا۔ اس کا مطلب ہے رسول ﷺکے کلمہ گو مسلمانوں نے خواتین اور بچوں کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ میں نے اپنے عشرہ میں ایک جملہ کہا کہ اگر عصر عاشور تک صرف ا مام حسین علیہ السلام کی شہادت تک کا واقعہ ہوتا تو ان لوگوں کے لئے بات اتنی بڑی نہ ہوتی جتنی بڑی ہوگئی۔ ان پر اتنی لعنت نہیں پڑتی اگر وہ واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدینؑ ، اہل حرم اور بچوں کو احترام کے ساتھ کوفہ لے جاتے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اہل بیتؑ کا دشمن نادان ہوتا ہے۔ اس زمانے میں بھی نادان تھا، آج بھی نادان ہے۔ انہوں نے سوچا کہ ان لوگوں کو اس قدر ذلیل کردو کہ تاریخ میں ہمیشہ رسوا رہیں۔ لیکن و تعز من تشاء و تذل من تشاء۔ جس کو وہ چاہتا ہے عزت دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ جتنے نام نہاد مولویوں نے یہ کہا ہے کہ نعوذ باللہ امام علیہ السلام نے خروج کیا ، ان سے سوال یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے خروج کیا، تو اگر یزید نے امام علیہ السلام کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا، تو یزید کا جو خط مدینہ کے حاکم کے نام آیا تھا، اس میں کیا تحریر تھا۔ اہل بیتؑ کا دشمن ہمیشہ نادان ہوتا ہے۔ مروان نے امام حسین علیہ السلام سے کہا تھا کہ حسین بیعت کرلو اس میں تمہارا بھلا ہے۔ تب امام علیہ السلام نے کہا تھا کہ سب لوگوں کے سامنے بات ہوگی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ تم یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہو، قیامت کے دن بس ایک سوال کا جواب دے دینا کہ سیدانیوں کو باقاعدہ طور پر بے پردہ کرکے کربلا سے کوفہ کیوں لے جایا گیا؟ عزادارو! آج گیارہ محرم ہے۔ رسول کی نواسیوں کو رَسن بستہ بے کجاوہ اونٹوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ امام سجادؑ کے گلے میں طوق، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، اور پیروں میں بیڑیاں ڈالی گئیں۔ اور انہیں تکلیف پہنچانے کے لئے مقتل کی طرف سے گزارا گیا۔ جناب زینبؑ نے دیکھا کہ امام سجادؑ کی حالت غیر ہو رہی ہے ۔ مَا لِي أَرَاكَ تَجُودُ بِنَفْسِكَ، تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم اپنی جان دے رہے ہو۔ امام سجادؑ نے پھوپھی کی طرف رخ کرکے کہا: پھوپھی اماں ! میں کس طرح آہ وزاری نہ کروں؟جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بابا، چچا، بھائیوں اور دیگر عزیزو اقرباء کے لاشے خون میں لت پت، زمین پر عریان پڑے ہیں۔اور کوئی ان کو دفن کرنے والے نہیں ہیں۔الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین۔

خطبہ ثانی:

مومنین تقویٰ اختیار کیجئے کہ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ 

بھرپور عزاداری کی گئی اور اللہ تعالیٰ سے یہی توقع ہے کہ ہمیں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ بس کوشش کیجئے کہ عزاداری کی سادگی اپنی جگہ پر باقی رہے۔ اس کو واجب سمجھئے۔ اس لئے کہ ایسی ایسی چیزیں عزاداری میں ڈالی جا رہی ہیں کہ واقعاً تعجب ہوتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ جلوسِ عزا میں سبیلوں پر کولڈ ڈرنک بانٹی جا رہی تھی۔ لوگ کولڈ ڈرنک لینے کے لئے ٹوٹ پڑ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میرا دل بہت جلا۔ عصر عاشور کے وقت جو غم کے عروج کا وقت ہے۔ ہمارے لئے عاشورا آج بھی وہی عاشورا ہے جو سن ۶۱ ہجری میں واقع ہوا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت سی تسبیحیں لال نہیں ہوتیں۔ شب عاشور بروسٹ بانٹ رہے ہیں، پیزا بانٹ رہے ہیں۔ طرح طرح کے جوس بانٹ رہے ہیں۔ یہ چیزیں عزاداری کی روح کے خلاف ہے۔ اگر ہم ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو کم از کم خود اس میں شامل نہ ہوں۔ سبیلیں لگائیں، شربت پلائیں، ثواب ہی ثواب ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ الحمدللہ، پاکستان کے اکثر علاقوں میں عزاداری بہت پرامن رہی۔ حکومت نے اتنی محنت کی لیکن چند جگہوں پر جس میں کل رات جلوس سے واپسی پر منگھو پیر کے علاقے اور عباس ٹاؤن میں فائرنگ کی گئی۔ بہاولنگر کا واقعہ بہت بڑا ہے۔ قائدمحترم نے بھی واقعہ کی تفصیلات جاننے کے لئے اپنی ٹیم روانہ کی ہوئی ہے۔ ۵ یا ۶ محرم الحرام کو قائد محترم نے ایک بہت بڑی پریس کانفرنس کروائی تھی۔ اس میں یہی کہا تھا کہ ہمارے پاس رپورٹس ہیں کہ چیزیں بہت اچھی نہیں ہو رہی ہیں۔ مشکل کیا ہے؟ بہاولنگر میں انتظامیہ کی طرف سے جس شخص کو تعینات کیا گیا وہ ایک انتہائی متعصب شخص ہے۔ اور چند دنوں پہلے ہی اسے لگایا گیا ۔ اس کے خلاف شکایت دی گئی کہ اس کو مت لگاؤ ورنہ کوئی نہ کوئی واقعہ ہوجائے گا، اور واقعہ ہوگیا۔ واقعہ بہاولنگر میں ہوا لیکن شیعہ سب جگہ غمزدہ ہوگئے۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بلتستان کے ایک علاقے میں عزاداری کو روکا گیا جس کی تفصیلات آ رہی ہیں۔ بعض اور واقعات بھی ہیں جن کی تفصیلات کا ابھی انتظار ہے۔ 

اکثر جگہوں کے جلوس پرامن رہے۔ شرارت بعض جگہوں پر کی جاتی ہے۔ اور میں آپ کو لکھ کر دے سکتا ہوں کہ یہ شرارت اہل سنت نہیں کرتے۔ یہ شرارت ایک ٹولہ ہے جن کو نہ حسینؑ سے محبت ہے نہ حسینؑ سے محبت کرنے والوں سے محبت ہے۔ لیکن ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم عزاداری کو اور بہتر انداز سے آگے بڑھائیں گے۔ جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آریں کاٹی گئی ہیں ان کے خلاف باقاعدہ طور پر ایکشن لیا جانا چاہئے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جن مومنین کو پکڑا گیا ہے انہیں جلد از جلد رہا کرالیں۔ 

جو واقعہ پانچ چھ دنوں میں رونما ہوا وہ تاریخ میں ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ آپ وہاں سے بیٹھ کر دیکھ رہے ہیں، آپ کو تھوڑا نظر آ رہا ہے جبکہ مجھے یہاں سے باہر کا بھی کچھ حصہ نظر آرہا ہے۔ عالمی تجزیہ نگار چیزوں کو بہت اونچائی سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ 2.2 ٹریلین ڈالرز خرچ ہوئے اور اتنے لوگ مرے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کتنے ٹریلین ڈالرز خرچ ہوئے اور کتنے لوگ مرے، مسئلہ یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو سپرپاور، بدمعاش اور غنڈہ بتاتا تھا، یورپ جیسے نام نہاد پڑھے لکھے ہیومن رائٹس۔۔۔۔ میں ہیومن رائٹس کا مذاق اڑاؤں آپ کے سامنے۔ امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے بیس سال پہلے افغان طالبان کو سپورٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ افغانستان تمہارا ہے۔ جاؤ لڑو، قبضہ کرو اور ان کو نکالو جنہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ۔ سات محرم کو جیسے ہی میں نے یہ کلپ ڈالی، فیس بک نے میری آئی ڈی بلاک کردی کہ آپ نے ہمارے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ طالبان نے کہا کہ جو دنیا ہیومن رائٹس اور فریڈم کی ہم سے بات کرتی ہے ہمیں جواب دے کہ ہمارے فیس بک کے سارے پیج کیوں بلاک کردئیے گئے؟یہ امریکہ اور یورپ ہیومن رائٹس اور فریڈم آف ایکسپریشن کی بات نہیں کرتے بلکہ اپنے مقصد کے لئے چیزوں کو استعمال کرتے ہیں اور جہاں اپنا مقصد ختم ہوا، وہاں سب ختم۔ افغانستان میں اتنے لوگ مارے گئے، اس کا جواب کون دے گا؟ دنیا کی کوئی کورٹ ہے؟ پہلے نائن الیون کی بنیاد پر افغانستان میں حملہ کیا گیا، اس کی وجہ سے شام میں مسائل پیدا کئے، عراق میں داعش کو ڈالا گیا، داعش کو پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ چاہے وہ یمن ہو، چاہے وہ لیبیا ہو، چاہے وہ دوسرے ممالک ہوں، سب میں اتنی دہشت پیدا کردی جائے کہ کوئی کچھ نہ کہہ سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ ہمیں کس کے ذریعے کس کو ذلیل کروانا ہے۔ طالبان جیسے ساٹھ ستر ہزار لوگ ۔۔۔۔ طالبان کے بارے میں میں یہ واضح کردوں کہ ہم اس وقت نہ ان کے خلاف بات کر رہے ہیں، نہ ان کے حق میں بات کر رہے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آیا آگے چل کر جو قول انہوں نے دئیے ہیں ان پر عمل کریں گے یا نہیں۔ ہمیں بہت اچھا لگا، پرچم اترے، انہوں نے معذرت کی، پرچم واپس لگائےگئے، مجلسیں کرنے دیں۔ وہاں پر سپاہ صحابہ ٹائپ کی کوئی چیز نہیں ہے جو فائرنگ کرے اور مسائل کھڑی کرے۔ جو چیز اللہ تعالیٰ نے آج دنیا والوں کو سمجھائی ہے کہ اگر پھٹی ہوئی چپلیں پہننے والے اپنے عقیدے میں مضبوط ہوجائیں تو امریکہ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود امریکہ کو پسپا ہونا پڑا اور طالبان نے قبضہ کرلیا۔ تین ساڑھے تین لاکھ کی افغان فوج، بیس سال کی تربیت، ٹریلین ڈالرز خرچ ہوئے لیکن ۔۔۔۔ آج مغرب کے آزاد فکر لوگ جو تجزیہ کر رہے ہیں میں چاہوں گا کہ انہیں پڑھیں اور اپنی معرفت کو بڑھائیں۔ یہ لوگ آتے کس نام سے ہیں، کرتے کیا ہیں، اور ان کے فوائد کن کو پہنچتے ہیں۔ کل ایک پوسٹ میں بتایا گیا کہ کن کن امریکی کمپنیوں کو افغان جنگ میں فائدہ ہوا۔ جن کے اثاثے ملین میں تھے اب بلین میں جا پہنچے ہیں۔ لیکن یہ سب سیاست انسانی خون پر ہوئی۔ کتنی خواتین بیوہ ہیں، کتنے بچے یتیم ہیں۔ اب ہیومن رائٹس والے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ طالبان کے خلاف انہیں بہت کچھ بولنے کو ملے گا لیکن اس دفعہ کے طالبان میں اور پچھلی دفعہ کے طالبان میں فرق ہے جو آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں۔ دیکھیں قبضہ کرلینا بہت آسان ہے۔ لیکن ملک چلانا بہت مشکل بات ہے۔ اس کے لئے پولیس چاہئے، بیوروکریسی چاہئے، انٹرنیشل لیول پر کام کرنے والے افراد چاہئیں۔ بندوق کے ذریعے صدارتی محل پر قبضہ تو کرلیا، لیکن اگر چیزوں کو چلانے کے لئے عقلمندی سے کام نہ کیا گیا تو آئندہ بیس سال افغان لوگوں کے لئے بہت مشکل ہوجائیں گی۔ اور چیزیں صرف وہاں تک نہیں رہیں گی بلکہ یہ چیزیں یہاں بھی آئیں گی۔ اس کے حل کے لئے ایک عام فہم چیز یہ ہے کہ سب کو بٹھایا جائے، اور ہر ایک کو اس کی حیثیت کے مطابق حصہ دیا جائے۔ اور ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں کسی پر ظلم نہ ہو۔ اس لئے کہ اب تم اسلام کا پرچم لے کر نکلے ہو۔

جب انقلاب اسلامی آیا تھا، اس وقت امام خمینیؒ نے دنیا کی آنکھوں سے پردہ ہٹایا تھا کہ یہ شیطان بزرگ ہے، اب چالیس بیالیس سال بعد جب طالبان نے ان کی حقیقت سے پردہ ہٹایا ہے تو دنیا والے دیکھ رہے ہیں کہ امام خمینی نے کہا تو صحیح تھا۔ اگر اس وقت ہم سمجھ جاتے تو آج انسانی جانوں کا اتنا ضیاع نہ ہوتا۔ نہ کشمیر کی مشکل آتی، نہ دوسری جگہوں پر مشکل آتی۔ مودی جیسا شخص جو شیطان کا باپ ہے، اسرائیل میں بیٹھا شخص بھی شیطان کا دادا ہے اور امریکہ خود شیطانِ بزرگ ہے، یہ لوگ آرام سے بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ حکومت پاکستان ہوشیار ہوجائے۔ یہ جو تم سکون سے بیٹھ کر کہہ رہے ہو کہ ہم نیوٹرل ہیں۔ یہ امکان نہیں رہتا کہ آپ نیوٹرل رہیں۔ آپ کو دیکھنا ہوگا کہ قومی مفاد میں کیا چیز ہے ورنہ پرانی غلطیوں کے بعد پھر سے قتل عام کا بازار شروع ہوگا اور پاکستان کے مسلمانوں کے لئے بڑی سخت صورتحال ہوگی۔ 

علامہ شبیر میثمی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت کو میں خبردار کرتا ہوں کہ خدارا آنکھ، ناک، کان کھلے رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی اسٹریٹیجی میں کوئی غلطی کربیٹھیں۔ دیکھ لو کہ ہندوستان نےاربوں ڈالرز کی انویسٹمنٹ کی ہوئی تھی افغانستان میں، ایک ہی جھٹکے میں سب ملیا میٹ ہوگیا۔ ایسا نہ ہو کہ آئندہ تم کو ذلیل و رسوا ہونا پڑے۔ تم اپنے ملک کو سنبھال لو۔ اپنے ملکی مسائل کو حل کرلو، وہ بہت زیاد ہے۔ تم پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنا چاہتے ہو، اس ملک پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی خاص شفقت ہے۔ ہم اس محبت اور شفقت کو دیکھ رہے ہیں۔ بڑے بڑے طوفان آئے ہیں، اور اللہ نے دور کردئیے ہیں۔ یہ آپ کی اہل بیتؑ سے محبت ہے۔ شیعہ سنی سب کو کہہ رہا ہوں، اس لئے کہ جو اہل بیتؑ سے محبت نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں۔ عزاداری وہ بھی کرتے ہیں، ہم بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے طریقے سے کرتے ہیں ہم اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔ جب تک پاکستان کے اندر اہل بیتؑ کا احترام رہے گا اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .